روزنامہ جنگ میں انصار عباسی نے لکھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) ظہیر الاسلام نے دوٹوک الفاظ میں انکار کیا کہ انہوں نے کسی بھی شخص کے ذریعے وزیراعظم نواز شریف کو کوئی پیغام بھیجا تھا۔انہوں نے کہا کہ میں نے کسی کو بھی وزیراعظم کو کوئی پیغام دینے کیلئے نہیں بھیجا، یہ بالکل غلط ہے، اس کی بجائے، انہوں نے اصرار کیا کہ 2014 کے دھرنے کے وقت ہر موقع پر وہ حکومت کو مشورہ دیتے رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک سے سیاسی انداز سے نمٹا جائے تاکہ احتجاج ختم کیا جا سکے۔رپورٹ کے مطابق اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی کابینہ کے ارکان اور سینئر رہنما نواز شریف کو پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے دھرنے کے ذریعے اقتدار سے نکال باہر کرنے کے مبینہ ’منصوبے‘ کا ذکر کرتے رہے ہیں لیکن حکومت نے اب تک اس معاملے کی تحقیقات نہیں کرائی
یادرہے کہ استعفیٰ مانگنے کے اس دعوے کے ساتھ نواز شریف نے اس شخص کا نام نہیں بتایا جو ان کے پاس ڈی جی آئی ایس آئی کا پیغام لے کر آیا تھا۔ یہ امربھی قابل ذکر ہے کہ 2014 میں، پاکستان تحریک انصاف اور طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک نے 126؍ دن تک اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا جو 2013 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کیخلاف تھا، یہ پہلی مرتبہ ہے کہ نواز شریف نے کھل کر اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے ظہیر الاسلام کے مبینہ منصوبے کے حوالے سے کوئی بات کہی تھی۔2015 کے آخری دنوں میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کا نام لے کر ان کے پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے 2014 کے دھرنے کے دوران نواز شریف حکومت کو مبینہ طور پر غیر مستحکم کرنے میں کردار کا ذکر کیا تھا۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ حکومت کیخلاف ’لندن پلان‘ کی سازش کے پیچھے جنرل ظہیر کا ہاتھ ہے، اُس وقت، حکمرانوں کے بند کمروں کے اجلاسوں میں جو کچھ زیر بحث تھا وہ وزیر دفاع نے سب کو بتا دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف حکومت کیخلاف لندن پلان جنرل شجاع پاشا ور جنرل ظہیر الاسلام کا مشترکہ پلان تھا۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ اپنا ذاتی تنازع نمٹانے کیلئے جنرل ظہیر نے قومی مفاد کو نقصان پہنچایا۔ خواجہ آصف کی رائے تھی کہ وزیراعظم اس صورتحال سے اچھی سے نمٹے اور وہ پرسکون رہے۔
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔