ایک یورپی مورح لین پول لکھتا ھے
صلاح الدین کے ھاتھوں جو مال غنیمت لگا اسکا کوئی حساب نھیں تھا، جنگی قیدی بھی بے اندازہ تھے، سلطان نے تمام تر مال غنیمت تین حصوں میں تقسیم کیا، ایک حصہ جنگیں قیدیوں میں تقسیم کر کےانکو رھا کردیا، دوسرا حصہ اپنے سپاھیوں اور غرباء میں تقسیم کیا، اور تیسرا حصہ مدرسہ نظام المک کو دے دیا، اس نے اسی مدرسے سے تعلیم حاصل کی تھی۔ نہ حود کچھ رکھا اور نہ اپنے کسی جرنیل کو کچھ دیا، اس کا نتیجہ یہ ھوا کہ جنگی قیدی جن میں بہت سے مسلمان تھے اور باقی غیر مسلم ، رھا ھوکر سلطان کے کیمپ میں جمع ھوگئے اور سلطان کی اطاعت قبول کر کے اپنی خدمات فوج کے لیے پیش کردی ایوبی کی کشادہ ظرفی اور عظمت دور دور تک مشہور ھوگئ
اس سے پہلے حسن بن صباح کے پراسرار فرقے فدائ جنھیں یورپین مورحین نے قاتلوں کا گروہ لکھا ھے صلاح الدین ایوبی پر دو بارہ قاتلانہ حملے کرچکے تھے لیکن اللہ نے اس عظیم مرد مجاھد سے بہت کام لینا تھا دونوں بار ایک معجزہ ھوا جس میں یہ مرد مجاھد بال بال بچ گیا سلطان پر تیسرا قاتلانہ حملہ اس وقت ھوا جب وہ اپنے مسلمان بھایئوں اور صلیبوں کی سازش کی چٹان کو شمشیر سے ریزہ ریزہ کرچکا تھا۔ امیر سیف الدین میدان جنگ سے بھاگ گیا تھا مگر وہ سلطان کے خلاف بعض اور کینہ سے باز نھیں آیا۔ اس نے حسن بن صباح کے قاتل فرقے کی مدد حاصل کی۔
حسن بن صباح کا فرقہ اسلام کی آستین میں سانپ کی طرح پل رھا تھا۔ اس کا تفصیلی تعارف بہت ھی طویل ھے، مختصر یہ کہ جس طرح زمین سورج سے دور ھوکر گناھوں کا گہوارہ بن گئی ھے، اسی طرح ایک حسن بن صباح نامی ایک شحص نے اسلام سے الگ ھوکر نبیوں اور پیغمبروں والی عظمت حاصل کرنے کا منصوبہ بنایا وہ اپنے آپکو مسلمان ھی کہلاتا رھا اور ایسا گروہ بنالیا جو طلسماتی طریقوں سے لوگوں کا اپنا پیروکار بناتا ، اس مقصد کے لیے اس گروہ نے نہایت حیسن لڑکیاں نشہ آور جڑی بوٹیاں ھیپناٹزم اور چرب زبانی جیسے طریقے اپناے، بہشت بنائی جس میں جاکر پتھر بھی موم ھو جاتے تھے اپنے محالفین کو قتل کرانے کے لیے ایک گروہ تیار کیا، قتل کے طریقے حفیہ اور پر اسرار ھوتے تھے، اس فرقے کے افراد اس قدر چالاک ذہین اور نڈر تھے کہ بھیس بدل کر بڑے بڑے جرنیلوں کے باڈی گارڈ بن جاتے تھے اور جب کوئی پراسرار طریقے سے قتل ھوجاتا تو قاتلوں کو سراغ ھی نھیں مل پاتا، کچھ عرصہ بعد یہ فرقہ "قاتلوں کا گروہ" کے نام سے مشہور ھوا
یہ لوگ سیاسی قتل کے ماھر تھے زھر بھی استعمال کیا کرتے تھے، جو حسین لڑکیوں کے ھاتھوں شراب میں دیا جاتا تھا بہت مدت تک یہ فرقہ اسی مقصد کے لیے استعمال ھوتا رھا۔۔ اسکے پیروکار "فدائی" کہلاتے تھے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کو نہ تو لڑکیوں سے دھوکہ دیا جاسکتا تھا اور نہ ھی شراب سے۔ وہ ان دونوں سے نفرت کرتا تھا ، سلطان کو اس طریقے سے قتل نھیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کو قتل کرنے کا یہی ایک طریقہ تھا کہ اس پر قاتلانہ حملہ کیا جائے ، اسکے محافظوں کی موجودگی میں اس پر حملہ نھیں کیا جاسکتا تھا، دو حملے ناکام ھو چکے تھے۔ اب جبکہ سلطان کو یہ توقع تھی کہ اسکا چچازاد بھائی الصالح اور امیر سیف الدین شکست کھا کر توبہ کر چکے ھونگے انھوں نے انتقام کی ایک اور زیر زمین کوشش کی۔
صلاح الدین نے اس فتح کا جشن منانے کے بجائے حملے جاری رکھے اور تین قصبوں کو قبضے میں لیا، ان میں غازہ کا مشہور قصبہ تھا، اسی قصبے کے گردونواح میں ایک روز سلطان صلاح الدین ایوبی ، امیر جاوالاسدی کے خیمے میں دوپہر کے وقت عنودگی کے عالم میں سستا رھے تھے، سلطان نے وہ پگڑی نھیں اتاری تھی جو میدان جنگ میں سلطان کے سر کو صحرا کی گرمی اور دشمن کے تلوار سے بچا کر رکھتی تھی۔ خیمے کے باھر اسکے محافظوں کا دستہ موجود اور چوکس تھا، باڈی گارڈز کے اس دستے کا کمانڈر زرا سی دیر کے لیے وھاں سے چلا گیا، ایک محافظ نے سلطان کے خیمے میں گرے ھوے پردوں میں سے جھانکا، اسلام کے عظمت کے پاسبان کی آنکھیں بند تھی اور پیٹھ کے بل لیٹا ھوا تھا، اس محافظ نے باڈی گارڈز کی طرف دیکھا، ان میں سے تین چار باڈی گارڈز نے اسکی طرف دیکھا، محافظوں نے اپنی آنکھیں بند کر کہ کھولی) ایک خاص اشارہ)
تین چار محافظ اٹھے اور دو تین باقی باڈی گارڈز کو باتوں میں لگالیا، محافظ خیمے میں چلا گیا۔۔۔ اور حنجر کمر بند سے نکالا۔۔۔دبے پاؤں چلا اور پھر چیتے کی طرح سوئے ھوئے سلطان صلاح الدین ایوبی پر جست لگائی۔ حنجر والا ھاتھ اوپر اٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔
عین اسی وقت سلطان نے کروٹ بدلی، یہ نھیں بتایا جاسکتا کہ حملہ آور حنجر کہاں مارنا چاھتا تھا، دل میں یا سینےمیں۔۔۔ مگر ھوا یوں کہ حنجر سلطان کی پگڑی کے بالایئ حصے میں اتر گیا، اور سر بال برابر جتنا دور رھا اور پگڑی سر سے اتر گی،
سلطان صلاح الدین بجلی کی تیزی سے اٹھا، اسے سمجھنے میں دیر نھیں لگی کہ یہ سب کیا ھے ۔اس پر اس سے پہلے دو ایسے حملے ھو چکے تھے۔ اس نے اس پر بھی اظہار نھیں کیا کہ حملہ آور خود اسکی باڈی گارڈ کی وردیوں میں تھے، جسے اس نے خود اپنے باڈی گارڈز کے لیے منتحب کیا تھا، اس نے ایک سانس برابر بھی اپنا وقت ضائع نہ کیا ۔ حملہ آور اپنا حنجر پگڑی سے کھینچ رھا تھا۔ ایوبی کا سر ننگا تھا۔۔ اس نےبھر پور طاقت سے ایک گھونسہ حملہ آور کی تھوڑی پر دےمارا۔ ھڈی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ حملہ آور کا جبڑا ٹوٹ چکا تھا، وہ پیچھے کی طرف گرا اور اسکے منہ سے ھیبت ناک آواز نکلی۔اسکا حنجر ایوبی کی پگڑی میں رہ گیا تھا، ایوبی نے اپنا حنجر نکال لیا تھا، اتنے میں دو محافظ اندر آئے ، ان کے ھاتھوں میں تلواریں تھی، سلطان صلاح الدین نے انھیں کہا کہ ان کو زندہ پکڑو۔
لیکن یہ دونوں محافظ سلطان صلاح الدین پر ٹوٹ پڑے، سلطان صلاح الدین نے ایک حنجر سے دو تلواروں کا مقابلہ کیا۔یہ مقابلہ ایک دو منٹ کا تھا۔ کیونکہ تمام باڈی گارڈز اندر داخل ھوئے تھے، سلطان صلاح الدین یہ دیکھ کر حیران تھا کہ اسکے باڈی گارڈز دو حصوں میں تقسیم ھوکر ایک دوسرے کو لہولہان کر رھے تھے، اسے چونکہ معلوم ھی نہ تھا کہ اس میں اسکا دوست کون ھے اور دشمن سو وہ اس معرکہ میں شامل ھی نھی ھوا، کچھ دیر بعد باڈی گارڈز میں چند مارے گئے کچھ بھاگ گئے کچھ زخمی ھوئے، تو انکشاف ھوا کہ یہ جو دستہ سلطان صلاح الدین کی حفاظت پر مامور تھا اس میں سات فدائی تھے جو سلطان صلاح الدین کو قتل کرنا چاھتے تھے، انھوں نے اس کام کے لیے صرف ایک فدائ کو اندر خیمے میں بھیجھا تھا، اندر صورت حال بدل گئی تو دوسرے بھی اندر چلے گیے، اصل محافظ بھی اندر چلے گیے وہ صورت حال سمجھ گیے ، سو سلطان صلاح الدین بچ گیا۔سلطان صلاح الدین ن اپنے پہلے حملہ آور ھونے والے کی شہ رگ پر تلوار رکھ کر پوچھا ، کہ وہ کون ھے اور اسکو کس نے بیجھا ھے۔ سچ کہنے پر سلطان نے اسکے ساتھ جان بحشی کا وعدہ کیا۔ اس نے کہا کہ وہ " فدائ " ھے اور اسکو کیمیشتکن ) جسے بعض مورحین نے گمشتگن بھی لکھا ھے( نے بیجھا ھےکیمیشتکن الصالح کے قلعے کا ایک گورنر تھا
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔