ریتیلی پتھروں پر مشتمل چٹان درمیان سے دوحصوں میں اس طرح منقسم ہے کہ اسے دیکھ کر یہی گمان ہوتا ہے کہ چٹان کو تیز دھار آری یا بلیڈ سے کاٹا گیا ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ قدرتی طور پر ہی ایسا ہے یا موسمی تبدیلی کے سبب از خود کٹائی ہوئی، بعض کا کہنا ہے کہ اسے انسانوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔
برسٹل یونیورسٹی کی جیولوجسٹ و ماہر ارضیات چیری لویس کا کہنا ہےکہ چٹان قدرتی طور پر کٹی ہوئی ہےـ، کٹائی کا یہ عمل موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے رونما ہوسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ممکن ہے لاکھوں برس قبل یہ چٹان مکمل ہو اور اس کے کسی گڑھے میں پانی جمع ہو گیا ہو جو موسم سرما میں جم کر برف میں تبدیل ہو گیا، بعد ازاں برف پگھلنے پر پانی چٹان کی کسی دراڑ میں گرنے سے اس میں معمولی سی دراڑ پڑ گئی ہو اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مذکورہ شکل اختیار کرلی۔
چیری لویس یہ بھی مانتے ہیں کہ پتھر کے دور کے انسان جنہوں نے چٹانوں کو چیر کر اس پر نقش ونگار کنندہ کیے اور رہنے کے لیے مکانات بنائے، یہ بھی قابل ذکر ہے۔
دوسری جانب برمنگھم یونیورسٹی کے ماہر ارضیات جو جیوفزیکسٹ پروفیسر ٹم ریسٹون کا کہنا تھا کہ عام طور پر چٹان میں دراڑ یا شگاف کا پیدا ہونا قدرتی عمل ہے جو ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ چٹان کو ’النصلہ ‘ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اسے دیکھنے میں ایسا لگتا ہے کہ چٹان کو درمیان سے کسی بلیڈ کی مدد سے انتہائی ماہرانہ انداز میں کاٹا گیا ہے- اس چٹان کے قریب دیگر چٹانوں پر عہد ثمود کے آثار پائے جاتے ہیں جو مختلف حیوانی شکلوں کی صورت میں چٹانوں پر کھودے گئے تھے
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔