میونسپل کمیٹی کا چھوٹا سا کچا پکا دفتر ساتھ ہی پرانی کچہریاں، ڈاک خانے کی چھوٹی سی کچی پکی بلڈنگ، سٹی تھانہ کی پرانی بلڈنگ، دریا کے ساتھ لگتی بدھ منڈی اور دریا میں نہاتی سارے شہر کی بھینسیں، اسلم موڑ اور اسلم ٹرانسپورٹ کا اڈا راکٹ بسیں، گرلز ہائ سکول کی پرانی ڈراونی بلڈنگ، للی لال روڈ، مرکزی عید گاہ میں والد صاحب اور بھایئوں کے ساتھ عید نماز پڑھنے جانا، صدر بازار کی دکانیں، سبزی چوک سے آگے احسن کلاتھ ھاوس پر بیٹھے شاہ صاحب، قیوم دی ھٹی پر بیٹھے بابا جی، پرانی چوکی، ساتھ ہی تیل والا کولہو، پرانا نیشنل بینک، سینما روڈ ناز اور چندا سینماز، اور معروف پینٹر خلیل لیہ، ناز سینما کی عقبی گلی میں گھروں سے باھر پیڑھیوں پر بیٹھے گنگناتے کچھ خاص لوگ،جنہیں اتفاق سے وہاں سے گزرتے دیکھا۔چھوٹا سا امام خانہ، ایم سی ہائ سکول اس کے ہاسٹل میں بنگالی مہاجروں کا آکر ٹھہرنا، ریلوے روڈ پر تانگوں کا بہت بڑا اڈا ساتھ گھاس کی بڑی دکان، منظور جوتہ اور حسنین شاہ صاحبان کی آئس فیکٹریاں، آباد ریلوے اسٹیشن جس کا لوہے کا پل بنتے ہوئے دیکھا اس وقت میں سامنے پرائمری سکول نمبر3 میں پڑھتاتھا، ریلوے پھاٹک کے پاس ریڑھیوں پر سوا روپئے سیر چینی بکتی تھی "کلو" بعد میں رائج ہوا۔ دیسی گھی بھی 1516 روپئے سیر، ساتھ شہر کا اکلوتا گلبرگ ہوٹل ساتھ جی ٹی ایس کا اڈا لال پرانی بسیں، سبزی منڈی تھوڑا آگے شمالی سائیڈ پر چاند خان کی چھوٹی سی دکان جہاں سے اپنی بھینسوں کیلئے کھل کی بوری 16/17 روپئے کی خود خریدی ان کے سامنے چھری چاقو کی لوہار کی دکان، پھر پرانا بلوچ اڈا جہاں سے بلوچ، صفدر نزیر اور نیئو خان کی بسیں نکلتی تھیں۔ 7-30 بجے شام کا مشہور نیئو خان کا لاہور کا ٹائم نکلتا تھا گجرات کیلئے اس پر جاتے تھے شیخو پورہ تک کا کرایہ 7 روپئے تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سنگل چوبارہ روڈ پر تانگوں اور گدھاریڑھیوں کی آمدو رفت، آگے شیخ غلام حسین کی منڈی جو اس دور میں شوگر مل کی ساری چینی خرید لیتا تھا۔ ساتھ ایک چوبارہ تھا نیچے بیڑے کی دکان تھی۔ میں سمجھتا تھا شاید اس چوبارے کی وجہ سے اس روڈ کو چوبارہ روڈ کہتے ہیں۔ چھوٹی سی نوری مسجد، پھر شیخ فیض رسول اور شیخ امام بخش کی آڑھتیں آگے ملک امیر دھول کا ٹرک اڈا، نہر کا پل اور اس پر مشہور نسوار کا پٹھان کا کھوکھا، سیشن ہاوس اس کے پیچھے pwd کا بہت بڑا سٹور، چھوٹی سی ٹیلیفون ایکسچینج جس میں لیڈوں سے کالز ملاتے ہوئے بشیر خان اور ابراھیم خان آپریٹرز مشہور تھے،سادہ سا پراچہ پمپ پر بیٹھے بزرگ پراچہ صاحب پمپ کے سامنے تانگوں گھوڑوں کی ورکشاپ جہاں پر محلہ قادر آباد کا کاریگر جس کے اپنے پاوں شاید پیدائشی ٹیڑھے تھے ان پر چمڑے کے بوٹ پہنتا تھا وہ تانگوں کی رپئیرنگ اور گھوڑوں کے پاوں کے نیچے لوہے کی کھریاں لگاتا تھا، ٹی ڈی اے چوک خالی موڑ تھا کالج روڈ پر صرف 3 کالج اور چھوٹا سا ھسپتال تھا۔ ٹی ڈی اے ورکشاپ فل جوبن پہ تھی۔ اس سے آگے یہ اڈا ، کچہری روڈ بائ پاس وغیرہ کچھ نہیں تھا سب ویران بیابان تھا۔ نہر کچی تھی چھوٹے سے محلہ قادر آباد اور منظور آباد سے آگے نہر کے دونوں طرف شوگر مل تک جنگل تھا۔ صرف دھولوں کے کچھ گھر تھے۔ محلہ منظور آباد مہر منظور حسین سمرا کے نام پر اور قادر آباد ان کے والد مہر قادر بخش سمرا کے نام سے منسوب ہیں۔ محلہ منظور آباد میں مہروں کا کھوہ تھا جہاں ریچھ کتوں کی لڑائ کرائ جاتی تھی۔ مہر منظور بھٹو دور میں ایم این اے بنے تھے ان کے پاس ایک سبز رنگ کی بڑی گاڑی MN-7 ہوتی تھی۔ آئے دن نہر پر دوپہر یا رات کے وقت کوئ نہ کوئ واقعہ ہوتا تھا خاص طور پر جنوں اور چڑیلوں کے واقعات اکثر سننے میں آتے تھے۔ نہر کے ساتھ ایک برف کا کارخانہ چوھدری محمد حسین کا تھا۔ پھر گلستان سینما بنا جو کافی خوبصورت تھا۔ بڑا رش ہوتا تھا۔ عیدین پر نئ فلمیں لگتی تھیں۔ لوگ پیدل سکول کالج اور دفتر جایا کرتے تھے۔ یا زیادہ سے زیادہ سائیکل پر۔ موٹر سائیکل یا سکوٹر کسی کسی کے پاس ہوتا تھا اور گاڑی تو کسی زیادہ امیر کے پاس۔ مگر خلوص چاھت اور محبت ملنساری احساس اور ایک دوسرے سے بھائ چارہ بہت تھا۔ پھر وقت بدلتا گیا آبادی بڑھتی گئ دولت آتی گئ رہن سہن بھی بدل گیا خوبصورت گھر اور گاڑیاں بھی آ گئیں فیشن بدل گیا اچھی سے اچھی تعلیم بڑے بڑے عہدے اور دنیا کی ہر سہولت آ گئ۔ مگر شایدآپس کا وہ پیار، خلوص، چاہت، احساس، رواداری سب کچھ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ کیونکہ ہم ترقی یافتہ اور امیر ہو گئے۔ شکریہ
تاریخ لیہ ایک بزرگ کی زبانی دلچسپ کہانی پڑھنے والونکی آنکھون مین آنسو لے آیینگی
February 13, 2018
0
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔