پنجاب کے تمام تھانوں کو کمپوٹرائزڈ کر کے ہر تھانے کے گیٹ پر بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب کی جا رہی ہے۔
جس کے تحت تھانہ میں داخل ہونے والے افراد کی سب سے پہلے ان کے قومی شناختی کارڈ کے ذریعے شناخت ہو گی بائیو میٹرک سسٹم پر شناخت کے بعد تھانہ کی عمارت میں داخل ہونے والے شخص کو تھانہ کے اندر جانے کی وجوہات بھی ساتھ درج کرانا ہوں گی۔واتین کے لیے تھانہ کے مرکزی گیٹ پر خاتون پولیس اہلکار بھی تعینات رہے گی جو تھانہ میں آنے والے خواتین سے تمام ریکارڈ حاصل کر کے اسے آن لائن درج کر ے گی۔
مقدمات کے اندراج کے حوالے سے جو طریقہ کار وضع کیا جا رہا ہے اس میں سب سے پہلے تھانہ میں موصول ہونے والی درخواست پر مقدمہ درج ہو گا۔
یف آئی آر جو رپورٹ ابتدائی ہوتی ہے اس کو درج کرنے کے بعد تفتیشی افسر کسی بھی شخص جس کے خلاف مقدمہ درج ہو گا اسے گرفتار نہیں کرے گا بلکہ پہلے مقدمہ کی میرٹ پر تفتیش ہو گی بعد ازاں علاقہ مجسٹریٹ سے باقاعدہ وارنٹ گرفتاری حاصل کرنے کے بعد ملزم کو گرفتار کیا جا سکے گا۔
ولیس ایکٹ 1860ء کے تحت جو کہ 1934ء کو پولیس رولز میں تبدیل ہوا اور پاکستان پینل کوڈ قرار پایا اس کے مطابق دیگر محکمے جن میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے اور نیب شامل ہیں اسی طرز پر پہلے تفتیش اور بعد ازاں ملزم کے گہنگار ثابت ہونے پر گرفتاری ہو سکے گی۔
س کے علاوہ گھروں کی تلاشی کے لیے باقاعدہ طور پر سرچ وارنٹ کو لازم قرار دیا جا رہا ہے کسی بھی فرضی وقوعہ جات کے مقدمہ میں کسی بے گناہ کی بعد از تفتیش گرفتاری پر وہی جرم مذکورہ تفتیشی افسر پر لگے گا۔
اسلحہ ، منشیات برآمدگی کی فرضی کارگزاری دکھانے والے پولیس ملازم کو اسی فرضی مقدمہ میں چالان کیا جائے گا جبکہ مقدمات کی تفتیش کو 14 دن کے اندر مکمل کرنا لازم قرار دیا جا رہا ہے۔
پولیس ایکٹ پر طریقے سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ہر تھانہ میں ایک سینئر انسپکٹر اور اس کے نیچے 2سب انسپکٹر بطور ایس ایچ او تعینات کیے جائیں گے جو 8/8 گھنٹے اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیں گے۔
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔