رشوت کادیمک اسقدر معاشرے کو چاٹ رہا ہے کہ کوئ محکمہ اس سے پاک نہیں، بڑے سے بڑا کام رشوت کے بل بوتے پر ناممکن سے ممکن ہوجاتا ہے
کسی بھی شعبہ ہائے زندگی کا ایکسرے کرلیں رشوت اسکے رگ و پے میں سرایت کرچکی ہوگی ہم اس حوالے سے صرف پولیس کو بدنام کرتے ہیں جبکہ کسر کہیں بھی نہیں ہے۔
رشوت وہ شخص ہی نہیں لیتا جسے کوئ دیتا نہیں یا ایک فیصد طبقہ ممکن ہے۔باقی ٹھیکیدار کے بل ہوں یا ہسپتال کے معاملات، بچوں کے داخلے کا مسئلہ ہو، یا نوکری میں سلیکشن ، عمر میں ہیر پھیر،جعلی دستاویزات، ناجائز حقوق کے حصول، اور نااہل کو اہل بنانے کے چکر میں، جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وقت سے قبل کسی چیز کو حاصل کرنے کیلئے، دوسروں کو نیچا دکھانے اور ناجائز ذرائع استعمال کیلئے ہم بخوشی رشوت دیتے ہیں کہ سو پچاس کی کوئ بات نہیں، اسطرح ہم رشوت کے غبارے میں ہوا بھر رہے ہیں ہم اسے تناور درخت بنانے کیلئے پانی لگا رہے ہیں
یاد رکھئے رشوت ایک دیمک ہے جو معاشرے کو چاٹ کر اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر رہا ہے
ہم ناجائز ذرائع استعمال کرکے دوسروں کی حق تلفی کررہے ہیں
پہلی پوزیشن والے کو موخر کررہے ہیں انکی حق تلفی معاشرے کے حقوق سلب کررہی ہے
جب انصاف نہیں ملتا تو وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں لوگ باغی ہوجاتے ہیں ایکدوسرے کی گردنیں مارنے لگتے ہیں ہم نے رشوت کو "گیدڑ سنگھی" سمجھ رکھاہے
یہ حقوق کا قتل عام ہے جب ہم حقدار کی زمین رشوت کے سہارے اپنے نام کرالیتے ہیں مالک مکان کو بےدخل کردیتے ہیں
ہمارےپاس دھوکے فریب کے 999 طریقے ہیں ہم سڑک اور سرکاری عمارات میں ناقص اور غیر معیاری مٹیریل استعمال کرکے سرکار سے غداری ہی نہیں کرتے بلکہ ناجائز رقم وصول کرکے مال حرام اکٹھا کرتے ہیں جس سے ہم لباس، خوراک اور دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں کیا حرام کھلاکر وفاداری کی توقع رکھی جاسکتی ہے
بڑے بڑےشرفا رشوت کی ہانڈی چاٹنے میں کسی سے پیچھے نظر نہیں آتے بس ہر ایک کا طریقہ واردات ذرا مختلف ہے
کسی دفتر میں چکر لگالگا کر کام نہیں ہورہاتھا کسی نے بتایا کہ فلاں روم میں ایک باریش بزرگ تشریف فرما ہوتے ہیں ان سے بات کرلو۔
صبح بندہ انکی ٹیبل پر پہنچا اور اپنا مدعا بیان کیا اور جیب میں ہاتھ ڈالا تو بزرگ جلال میں آگئے کہ " رشوت دینے والا اور لینے والا جہنمی ہے" وہ شخص نادم و پشیمان ہوکر اٹھنےہی والا تھا کہ انہوں نے دریافت فرمایا کس نے تم سے کہا ہے کہ میں رشوت لیتا ہوں۔ میں رشوت نہیں لیتا البتہ غربا کے راشن کیلئے کچھ میری جیب میں ڈال دو بس جا کر سیدھا ان لوگوں تک پہنچا دونگا اور پیر والے دن آنے کو کہا جب پیر کے روز انکے پاس پہنچا تو دیکھکر حیران ہوگیا کہ کام ہوگیا تھا۔
ایک اور دفتر میں جس شخص سے واسطہ پڑا وہ اس بات کادعویدار تھا کہ کبھی رشوت نہیں لی، صرف درس کے بچوں کی مدد کیلئے یہ نذر نیاز لیتا ہوں ۔
ایک اورملازم کا کہنا تھا فلاں دربار پر ہر ہفتے دیگ چڑھاتا ہوں خود ایک پائ بھی استعمال نہیں کرتا، ل
ایک ایسے دفتری اہلکار سے بھی واسطہ پڑا جو صاف کہہ رہا تھا پانچ بچے ہیں تنخواہ تھوڑی ہے بجلی گیس کا بل، بچوں کی پڑھائ کے اخراجات، بیماری، خوشی غمی دیر تک آفس بیٹھ کر کام کرتے ہیں تب گذارہ ہوتا ہے ہم شکم دوزخ بھرنے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کرتے۔
مجھے سندھ سے ایک ہیڈکلرک یاد آرہا ہے جس کے پاس کوئ رعائت نہ تھی وہ یتیم یسیر بیوہ نادار و مفلس سب کو ظلم وزیادتی کی چکی میں رگڑ جاتا تھا اچانک وہ بیمار ہوگیا اور اسکے مسوڑوں میں کیڑے پڑگئے ڈاکٹرز اس کا علاج تو کررہے تھے لیکن انکا کہنا تھا کہ جتنے کیڑے ختم ہوتے ہیں اس سے زیادہ نئے کیڑے نکل آتے ہیں کوئ دوا اثر نہیں کررہی۔ ہم اس شخص کو توبہ تائب ہونے کا کہہ رہے ہیں کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو۔
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔