رنجیت سنگھ کا بچپن ہی جنگ وجدل میں گزرا تھا لہذا اس کے لاشعور میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ ریاست چلانا صرف فوج کا ہی کام ہے۔ چنانچہ حکومت سنبھالنے کے بعد رنجیت سنگھ نے سکھوں کی ایک فوج منظم کی جسے خالصہ فوج کہا جاتا تھا اور اس کا ہیڈ کوارٹر لاہور سے چند کلو میٹر دور شالا مار باغ کے قریب اس جگہ تھا جسے ’’بدھو کا آوا‘‘ کہتے تھے۔
۔
وہ چھوٹے چھوٹے انتظامی امور کے لیے بھی فوج کو بھیجتا۔ مالیہ وصول کرنا ہو، کہیں ڈکیتی ہو جائے۔ قبائلی تصادم ہو، ہر جگہ فوجی افسران جاتے اور معاملات سنبھالتے۔
انصاف کے لیے فوجی عدالتیں لگتیں جو فوری طور پر انصاف فراہم کر دیا جاتا۔ سن1811ء میں جب یہ فوج ترتیب دی گئی تو اس کی تعداد صرف چار ہزار تھی جبکہ1839ء تک یہ لاکھوں تک جا پہنچی جس کے ساتھ گھڑ سوار دستے اور توپ خانہ بھی شامل تھا۔
ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے فوجی عدالتیں اکثر لوگوں کو بھاری جرمانے کرتیں۔ چھوٹے سے چھوٹے جرم پر بھی جائیداد قرق کرنے کا حکم دے دیا جاتا۔ برصغیر کی تاریخ میں سب سے زیادہ مالیہ اسی دور میں وصول کیا گیا۔ جو کہ پیداوار کا چالیس فیصد تک تھا۔
رنجیت سنگھ کی موت کے بعد اس کے جانشینوں میں خانہ جنگیاں بھی چلتی رہیں اور محلاتی سازشوں میں فوج کا عمل دخل بڑھنے لگا۔
رفتہ رفتہ سکھ فوج نے دو اختیار اپنے قبضے میں لے لیے۔ ایک مہاراجہ اور وزیر کی تقرری اور دوسرا یہ فیصلہ کرنا کہ غدار کون ہے اور محب وطن کون۔
۔
جس کو قتل کرنا ہوتا اُسے انگریز کا ایجنٹ یا غدار کا لقب دینا کافی تھا۔
جب کسی کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہوتا تو لاھور میں خانہ جنگی کروا دی جاتی۔ پھر امن قائم کرنے کے لئے ستر ہزار فوج شہریوں پر چڑھ دوڑتی۔ کشت و خون کا بازار گرم ہوتا۔
پھر فوجی جرنیل فیصلہ کرتے کہ حکمران کو تبدیل کر دیا جائے۔ ہر بار حکمران تبدیل کرنے کی قیمت لاھوری اپنے خون سے چکاتے
۔
فوج کے مطالبات بہت بڑھ گئے۔ جواہر سنگھ نے سارا خزانہ بلکہ محل کے سونے کے برتن تک ڈھلوا کر کنٹھے بنوائے اور سکھ فوج میں تقسیم کر دیے، جو ٹیکس اکٹھا ہوتا خرچ کر دیا جاتا مگر فوجیوں کے پیٹ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔
ملکی معیشت کی حالت قابل رحم تھی۔ پڑوسی ملکوں کو قرض دینے والی خالصہ ریاست قرضوں تلے اتنی دبی ہوئی تھی کہ کوئی انہیں ادھار دینے پر تیار نہ تھا۔
خزانہ خالی تھا۔ توشہ خانہ کے برتن بھی بیچے جا چکے تھے، لیکن خالصہ آوے میں بیٹھی خالصہ فوج کے مطالبات بڑھتے جا رہے تھے۔ امن و امان کی حالت مخدوش تھی۔ فوج قاعدے قانون سے ماورا تھی۔ مسلح سپاہیوں نے باقاعدہ لوٹ مار بھی شروع کر دی تھی۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فوج کے ڈر سے کوئی بھی شخص وزیر نہیں بننا چاہتا تھا، جس کو کہا جاتا وہ کانوں کو ہاتھ لگا کر بھاگ جاتا۔
گلاب سنگھ اور تیج سنگھ جیسے "وفادار کٹھ پتلی" بھی انجام سے ڈر کر بھاگ گئے۔ ایک بار تو باقاعدہ پرچیوں کے ذریعہ لال سنگھ کو زبردستی وزیر بنانا پڑا۔
۔
پھر سکھ تاریخ کا سب سے اھم ترین کردار رانی جنداں کی انٹری ہوئی۔
جس کے بھائی اور خاوند فوج نے غدار قرار دے کر قتل کر دیئے تھے۔ اب رنجیت سنگھ کے خاندان کا آخری چشم و چراغ 9سالہ دلیپ سنگھ ہی زندہ بچا تھا چنانچہ اسے ہی مہاراجہ بنانا پڑا اور کمسن مہاراجہ کی والدہ رانی جنداں کو اس کی سرپرست کی حیثیت سے محل تک رسائی مل گئی۔
رانی جنداں جانتی تھی کہ فوج سے ٹکرانے کا انجام ایک بھیانک موت ہو گا لہذا اس نے بیٹے کی زندگی کی خاطر انتہائی خاموشی سے اپنا کام شروع کر دیا۔
جرنیلوں کی طرف سے نوجوان مہاراجہ دلیپ کمار کو لگاتار دھمکیاں مل رہی تھیں اگر حکومت اور جان عزیز ہے تو فوج کو پیسے فراہم کرو۔
رانی جنداں کے پاس بلیک میلنگ سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا کہ خالصہ فوج کو انگریز کی طاقتور فوج کے ساتھ لڑا دیا جائے۔
پراپیگنڈے کا وہ طریقہ جو خالصہ فوج استعمال کر تی تھی، اس نے بھی شروع کیا۔ حکومتی سرپرستی میں یہ افواہ پھیلائی گئی کہ کہ انگریز پنجاب پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ پروپیگنڈا عام فوجیوں تک پھیلا دیا گیا۔
رانی جنداں نے عوامی اجتماعات میں انگریزوں کو للکارنا شروع کر دیا کہ ہماری دلیر اور بہادر خالصہ فوج تمہیں پورے ہندوستان سے باہر نکال پھینکے گی۔
عام سپاہی کو انگریز کی طاقت کا اندازہ نہ تھا۔ اس لیے وہ مرنے مارنے پر تیار تھا،
لیکن جرنیلوں کو لڑائی کے نام سے خوف آتا تھا۔ انہوں نے رانی جنداں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انگریز بڑی بلا ہے اس سے پنگا مت لو۔
/
لیکن رانی نے جواب دیا۔ انگریز کی ایسی کی تیسی۔ سکھ قوم کے آپ جیسے بہادر دلیر کڑیل جوان محافظ ہیں ہم ان کی مٹی پلید کر دیں گے۔
جرنیل جونئرز کے سامنے کچھ بول تو نہ سکے لیکن انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا ہو گا کہ رانی نے ان کے لئے کڑکی تیار کر دی ہے۔ انھوں نے رانی جنداں کی مخالفت شروع کر دی۔ لیکن اب بات کافی آگے نکل چکی تھی۔
اب سکھ جرنیلوں کے لیے کوئی راستہ نہ تھا، ’’طاقتور‘‘ خالصہ فوج جب لڑنے نکلی تو
انہوں نے عمائدین شہر کو بلا کر مدد کی اپیل کی۔
جواب ملا۔ غریب عوام کا تو آپ نے پہلے ہی بھرکس نکال دی ہے۔ جو جوان مرد ملک کے لئے لڑ سکتے تھے وہ آپ نے جیلوں میں بند کر کے قتل کر دیئے یا تشدد کر کے معذور کر دیئے۔ زمینداروں کے کھیتوں کھلیانوں پر آپ نے قبضہ کر لیا ہے۔ ان کے گھر میں خود کھانے کو کچھ نہیں وہ آپ کو کیا دیں گے۔
چنانچہ انگریز فوج نے پیش قدمی شروع کی تو انہیں کسی قسم کی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ چار گھنٹے بعد معمولی مزاحمت کے بعد خالصہ ریاست پر فرنگیوں کا پرچم لہرا رہا تھا۔ عوام کو صرف اتنا فرق پڑا تھا کہ جن کھیتوں پر پہلے خالصہ فوج کا قبضہ تھا اب فرنگی فوج قابص تھی ....
پاکستانیات سے کاپی کیاھوا آرٹیکل
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔