اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ مسجد میں دوسری جماعت کا مستقل اہتمام غلط ہے۔
جن مساجد میں امام ومؤذن متعین نہیں ہیں (پانچوں نمازیں جماعت کے ساتھ اہتمام سے ادا نہیں ہوتیں)یا مارکیٹ یا ریلوے اسٹیشن کی مساجد میں (جہاں لوگ آتے جاتے رہتے ہیں) یا ایک شہر یا دیہات سے دوسرے شہر یا دوسرے دیہات جانے والی شاہراہ پر واقع مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کرنے میں تمام حضرات کا اتفاق ہے ۔
لیکن محلہ کی مساجد میں (جہاں امام ومؤذن متعین ہیں اور نمازیں جماعت کے ساتھ اہتمام سے ادا کی جاتی ہیں) دوسری جماعت کرنے کے متعلق اختلاف ہے ۔ امام احمد بن حنبل ؒ کی ایک روایت (جو ان کے متبعین میں زیادہ مشہور ہے) یہ ہے کہ اگر پہلے سے اتفاق کئے بغیر دو یا زیادہ حضرات کسی مسجد میں جماعت ختم ہونے کے بعد پہنچیں تو ان کے لئے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا تنہا تنہا پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے اگرچہ تنہا نماز پڑھنے پر بھی نماز ادا ہوجائے گی جس کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
حضرت ابی ابن کعب سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا تنہا ادا کرنے سے بہتر ہے اور ایک شخص کا دو شخصوں کے ساتھ جماعت سے نماز ادا کرنا دو آدمیوں کی جماعت سے بہتر ہے۔ (نسائی، ابو داؤد، ابن ماجہ)
حضرت ابو سعید الخدری فرماتے ہیں ہے کہ ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ ایک صحابیؓ جماعت ختم ہونے کے بعد داخل ہوئے تو آپ انے ارشاد فرمایا: کون شخص اس شخص پر صدقہ کرے گا کہ وہ اس کے ساتھ نماز ادا کرے؟ تو ایک صحابی اٹھے اور انہوں نے اس شخص کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (ترمذی ۲۲۰(
حضرت انسؓ ایک مرتبہ کسی مسجد میں داخل ہوئے تو لوگ نماز سے فارغ ہوچکے تھے۔ آپؓ نے اذان دی اور اقامت کہہ کر جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ (بیہقی۔ امام بخاری ؒ نے بھی موقوفاً اپنی تعلیقات میں ذکر کی ہے)۔
نوٹ: ان تینوں دلائل کے جوابات مضمون کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔
فقہاء وعلماء کی ایک بڑی جماعت (حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، شیخ حسن بصریؒ ، شیخ نافع مولی بن عمرؒ ، شیخ سالم بن عبداللہؒ ، امام ابوحنیفہ ؒ ، امام مالک ؒ ، امام شافعی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کی دوسری غیر مشہور روایت)کی رائے ہے کہ محلہ کی مسجد میں جہاں امام ومؤذن مستقل طور پر متعین ہیں، دوسری جماعت کا اہتمام کرنا مکروہ ہے بلکہ مسجد کے باہرکسی جگہ دوسری جماعت قائم کی جائے یا پھر مسجد میں تنہا نماز پڑھی جائے، جس کے بعض دلائل مندرجہ ذیل ہیں:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ اخود ہی صحابۂ کرام کو نماز پڑھایا کرتے تھے اور اگر کسی صحابی کی جماعت کی نماز چھوٹ جاتی تو وہ اپنی نماز تنہا پڑھتے تھے، دائیں بائیں کسی شخص کو تلاش نہیں کرتے تھے کہ اس کے ساتھ مسجد میں ہی دوسری جماعت کا اہتمام کریں۔ اس اَمر کو تقریباً ساری امت مسلمہ نے تسلیم کیا ہے، چنانچہ قرآن، حدیث، سیرت، تفسیر اور تاریخ کی کتابوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں مسجد میں دوسری جماعت کا ثبوت صرف ایک بار ملتا ہے جس کا واقعہ حضرت ابوسعید الخدری کی روایت میں اوپر گزر چکا ہے۔ غرضیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صرف ایک بار دوسری جماعت کا ثبوت ملتا ہے جس میں امام فرض پڑھ رہا ہے اور مقتدی اس پر صدقہ کرتے ہوئے نفل ادا کررہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس میں دو یا زیادہ اشخاص نے فرض نماز کی ادائیگی مسجد میں دوسری جماعت کی شکل میں کی ہو۔
حضرت امام شافعی ؒ اپنی مشہور ومعروف کتاب "الام" میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسئلہ میں تمام ائمہ سے یہی کہتے ہوئے سنا ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد میں جماعت ختم ہونے کے بعد مسجد پہونچے تو وہ تنہا نماز پڑھے۔ ہاں اگر راستہ کی مسجد ہے جہاں امام اور مؤذن متعین نہیں ہیں تو اس مسجد میں دوسری جماعت کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ ہمارے اسلاف نے صحابۂ کرام کی ایک بڑی جماعت سے یہی نقل کیا ہے کہ اگر وہ مسجد میں باجماعت نماز ختم ہونے کے بعد پہنچتے تو تنہا ہی نماز پڑھتے تھے۔ صحابۂ کرام ایک مسجد میں دومرتبہ جماعت سے نماز پڑھنے کو مکروہ سمجھتے تھے۔
محدث کبیر حافظ ابو بکر بن ابی شیبہ ؒ نے اپنی کتاب "المصنف" (جو مصنف بن ابی شیبہ کے نام سے مشہور ہے) میں صحیح سند کے ساتھ حضرت حسن بصری ؒ کا قول نقل کیا ہے کہ صحابۂ کرام جماعت فوت ہونے کی صورت میں تنہا نماز پڑھا کرتے تھے۔
حضرت ابی بکرۃ ؓ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے دیہی علاقوں سے لوٹ کر آئے اور نماز کی ادائیگی کا ارادہ کیا تو دیکھا کہ لوگ نماز سے فارغ ہوگئے ہیں لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر چلے گئے اور گھر کے افراد کو جمع کیا اور ان کے ساتھ جماعت سے نماز پڑھی۔ ( معجم الکبیر للطبرانی، مجمع الزوائد ۲/۴۵، المعجم الاوسط ۵/۳۵ / ۴۶۰۱ ، ۷/۵۱/ ۶۸۲۰، المجروحین لابن حبان ۳ / ۴۔۔۵، الکامل لابن عدی ۶/۲۳۹۸)۔ ۔۔ محدث ہیثمی ؒ نے کہا کہ اس حدیث کے تمام راوی مضبوط ہیں۔ شیخ ناصر الدین البانی ؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا (تمام المنۃ ص ۱۵۵)۔ شیخ مشہور حسن سلمانؒ نے بھی اس حدیث کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔ (اعلام العابد فی حکم تکرار الجماعۃ فی المسجد الواحد، ص ۳۴(
نوٹ: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جماعت اولیٰ فوت ہونے پر ہمارے اور ساری انسانیت کے قائد نبی اکرم انے مسجد میں جماعت ثانیہ کا اہتمام نہیں کیا بلکہ گھر جاکر دوسری جماعت کی۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک مرتبہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں نماز ادا کرنے کے لئے نکلے تو دیکھا کہ لوگ مسجد سے باہر آرہے ہیں اور جماعت ختم ہوگئی ہے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس گھر آئے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا فرمائی۔ (اس روایت کو امام طبرانی نے "المعجم الکبیر ۹۳۸۰" میں صحیح سند کے ساتھ ذکر فرمائی ہے نیز ابن عبد الرزاق نے "مصنف ۲/۴۰۹/۳۸۸۳" میں ذکر فرمائی ہے)۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کا شمار ان فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے کہ جن سے بڑے بڑے صحابہ کرام بھی مسائل میں رجوع فرمایا کرتے تھے۔۔ غور فرمائیں کہ کس چیز نے اس فقیہ صحابی کو مسجد میں دوسری جماعت کرنے سے روکا۔ یقیناًانہیں معلوم تھا کہ مسجد میں تنہا نماز پڑھنی ہوگی جبکہ مسجد کے باہر کسی دوسری جگہ میں دوسری جماعت کی جاسکتی ہے چنانچہ انہوں نے مسجد کے باہر دوسری جماعت کا اہتمام فرمایا تاکہ جماعت کی نماز کی فضیلت کسی حد تک حاصل ہوجائے ۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرا دل چاہتا کہ میں ایک شخص کو حکم دوں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں پھر جوانوں سے کہوں کہ بہت سا ایندھن اکٹھا کرکے لائیں پھر میں ان لوگوں کے پاس جاؤں جو بلا کسی عذر گھروں میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جاکر ان کے گھروں کو جلادوں۔ (بخاری ومسلم) اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے لئے جو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا کہ میں ان کے گھروں میں آگ لگادوں۔ ۔ ساری امت متفق ہے کہ یہاں پہلی جماعت مراد ہے۔ اگر عام مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کرنے کی مکمل طور پر اجازت دیدی جائے تو پہلی جماعت میں نہ آنے والوں کے گھروں کو آگ لگانے کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حجت پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ جب نبی اکرم ا جماعت میں شریک نہ ہونے والوں کے گھروں کو آگ لگانے جاتے تو وہ کہہ سکتے تھے کہ ہم دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت میں شریک ہوجائیں گے۔
متعدد احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت چاہتی ہے کہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ حضرات شریک ہوں کیونکہ زیادہ حضرات کی شرکت زیادہ ثواب کا باعث بنے گی عام مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کی ترغیب دینے کی صورت میں پہلی جماعت میں لوگوں کی شرکت یقیناًکم رہے گی، جو شریعت کی خواہش کے خلاف ہے۔
جیسا کہ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن علماء نے سہولت کے پیش نظر محلہ کی مساجد میں بھی دوسری جماعت کرنے کی اجازت دیدی ہے تو وہاں تقریباً ہر نماز کے بعد دوسری / تیسری/ چوتھی بلکہ کبھی کبھی متعدد جماعتیں ادا کی جاتی ہیں، جس سے جماعت کی نماز کا مقصود ہی فوت ہوجاتا ہے۔
عام مساجد میں دوسری / تیسری/ چوتھی جماعت کی اجازت دینے سے امت میں فرقہ بندی بڑھے گی، مثلاً اگر چند حضرات مسلکی اختلافات کی وجہ سے کسی امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنا چاہتے تو وہ دوسری یا تیسری جماعت کا اہتمام کریں گے۔ یہی وجہ سے کہ سعودی حکومت مسجد حرام اور مسجد نبوی میں دوسری جماعت کرنے سے روکتی ہے۔
مسجد میں دوسری جماعت ادا کرنے سے دیگر نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہوتا ہے خاص کرجو اپنی فوت شدہ رکعات پڑھ رہے ہوں، حالانکہ نماز کو خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنے کا حکم دیاگیا ہے جو نماز میں سب سے زیادہ مطلوب ہے۔
نوٹ: شیخ محمد ناصر الدین البانی ؒ (جن کی حدیث کی خدمات کو خلیجی ممالک میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ) کی رائے بھی یہی ہے کہ عام مساجد میں دوسری جماعت کرنا مکروہ ہے۔
جماعت ثانیہ کے قائلین کے دلائل کے جوابات:
حضرت ابی ابن کعب ؓ کی روایت سے صرف یہ معلوم ہوا کہ جماعت میں جتنے زیادہ حضرات شریک ہوں گے اتنا ہی ثواب زیادہ ملے گا۔ اس حدیث سے عام مساجد میں دوسری /تیسری /چوتھی جماعت کرنے کا دور دور تک کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
حضرت ابو سعید الخدری ؓ کی روایت سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ایک شخص جس نے فرض نماز جماعت سے ادا کرلی ہے دوسرے ایسے شخص پر صدقہ کررہا ہے جس نے ابھی فرض نماز ادا نہیں کی ہے۔ اگر دونوں فرض نماز ادا کررہے ہوں تو کون کس پر صدقہ کرنے والا ہوگا؟ یہاں حقیقتاً دوسری جماعت ہوئی ہی نہیں بلکہ ایک شخص نے نفل کی نیت کرکے اس پر صدقہ کیا۔ دو شخص نے فرض کی نیت کرکے مسجد میں دوسری جماعت ادا کی ہو، ایسا کوئی واقعہ نبی اکرم اکی زندگی میں نہیں ہوا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کے عمل کی روشنی میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ حضرت انسؓ کا عمل راستے کی کسی مسجد کا رہا ہوگا اسی لئے انہوں نے اذان اور اقامت کے بعد نماز پڑھی ورنہ محلہ کی مسجد میں دوبارہ اذان کا کیا مطلب؟
تنبیہ: بعض حضرات اس گمان کی وجہ سے کہ امام قعدہ اخیرہ میں ہے جماعت میں شریک نہیں ہوتے بلکہ دوسری جماعت کی مکمل تیاری شروع کردیتے ہیں جیسے ہی امام سلام پھیرتا ہے فوراً ہی دوسری جماعت شروع کردیتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، صحابۂ کرام، تابعین، تبع تابعین بلکہ اسلام کی پوری تاریخ میں ایسی کوئی نظیر ہمیں نہیں ملتی۔ لہذا ہمیں امام کے ساتھ ہی جماعت میں شریک ہونا چاہئے خواہ امام کے قعدہ اخیرہ میں ہونے کا یقین ہی کیوں نہ ہو۔
.واللہ اعلم ورسولہ اعلم باالصواب
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔