پولی گراف ٹیسٹ کو عرف عام میں جھوٹ پکڑنے والا جاسوس کہا جاتا ہے۔پولی گراف ٹیسٹ یا جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ ایک ایسی مشین کی مدد سے کیا جاتا ہے انسان کے جسم میں پیدا ہونے والی مختلف طبعی تبدیلیوں کی مدد سے اس بات کا تعین کرتی ہے کہ آیا وہ سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔، مثلاً سوالات کے جوابات دینے کے دوران ٹیسٹ دینے والے کا بلڈ پریشر ، نبض اور سانس کی رفتار اور جلد کا ردعمل کیا رہا؟
اس ٹیسٹ کے پیچھے تھیوری یہ ہے کہ سچ بولتے وقت انسان کا جسم معمول کے مطابق کام کرتا رہتا ہے جبکہ جھوٹ بولنے پر یہ مشین جسمانی رسپانس بھی ظاہر کرتی ہے جس میں دل کی دھڑکن، بلڈپریشر، نبض اور سانس کی رفتار، چہرے کا ری ایکشن شامل ہیں۔
ٹیسٹ لینے والا پولی گراف ٹیسٹ سے پہلے ابتدائی معلومات کے لیے انٹرویو کرتا ہے۔ اس معلومات کو بعد میں سوال نامہ تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔سوال کرنے والا نہ صرف ملزم بلکہ مشین پر بھی نظر رکھتا ہے اور جسمانی ریسپاس ریکارڈ کرتا رہتا ہے۔
پولی گراف ٹیسٹ میں ملزم کے ہاتھوں کے ساتھ ایک مخصوص مشین کی تاریں لگا دی جاتی ہیں جو اس کے جسم کے افعال چیک کر کے انہیں ریکارڈ کرتی رہتی ہے۔ اس دوران ایک یا ایک سے زیادہ ماہر تفتیش کار ملزم سے سوال پوچھتے رہتے ہیں اور ساتھ ہی مشین پر بھی نظر رکھتے ہیں کہ ملزم کے جواب کے دوران مشین کیا دکھا رہی ہے۔
اس ٹیسٹ کے پیچھے نظریہ یہ ہے کہ سچ بولتے وقت انسان کا جسم معمول کے مطابق کام کرتا رہتا ہے، جب کہ جھوٹ بولتے وقت جسمانی تبدیلیاں ہوتی رہیں ، اسے کچھ دیر تک سوچنا پڑتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے دل کی دھڑکن، بلڈپریشر، سانس کی رفتار وغیرہ بڑھ جاتے ہیں اور جلد پر ہلکے سے پسینے کی تہہ آ جاتی ہے۔ یہ ساری علامات پولی گراف مشین کی مدد سے مانیٹر کی جا سکتی ہیں، اور ان سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آیا یہ ملزم جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا ملزم مشین کو دھوکہ دے سکتا ہے؟
ایک ماہر کا ہاں میں جواب دیتے ہوئے کہنا ہے کہ مشین کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے لیکن اسکے لئے ملزم کو ٹریننگ حاصل کرنا پڑے گی۔ بعض اوقات چالاک مجرم جسے سوالوں کے جواب پہلے سے معلوم ہوتے ہیں وہ پہلے سے ٹریننگ حاصل کرلیتا ہے یا ذہن بنالیتا ہےکہ اسے اپنے اعصاب پر کنٹرول کرتے ہوئے اس سوال کے یہ غلط جواب دینے ہیں تو بچ سکتا ہے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا پولی گراف ٹیسٹ کو بطور شواہد استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اکثر ماہرین قانون نے اس کا جواب نہیں میں دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی قانون کے مطابق پولی گراف ٹیسٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور اسے عدالت میں بطور ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اسکی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ ضروری نہیں کہ پولی گراف ٹیسٹ کے دوران انسان جھوٹ بولے۔ کچھ ملزمان نفسیاتی دباؤ، کنفیوژن اور ذہنی بیماری کی حالت میں جواب دیتے ہیں تو مشین اسے جھوٹ سمجھ لیتی ہے حالانکہ ملزم سچ بول رہا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صرف پولی گراف ہی نہیں بلکہ پولیس کی حراست میں موجود کسی ملزم سے کیے جانے والے اعترافِ جرم کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہوتی اور عدالت میں ملزم بڑی آسانی سے اس سے انکار کر سکتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک مثال حدیبیہ منی لانڈرنگ کیس میں اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کی ہے جس سے وہ مکر گئے تھے اور یہ اعترافی بیان بطور شواہد استعمال نہیں کیا گیا۔
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔