بعض مولوی صاحبان یا عامل حضرات مقررہ وظیفے دیتے ہیں، کیا اسلام میں ان کے پڑھنے کی گنجائش ہے؟
September 08, 2018
0
جواب: ایسے وظائف کو قرآن و سنت پر پیش کریں۔ اگر وہ وظیفہ قرآن یا حدیث صحیح کے اندر موجود ہو اور وظیفہ کی مقدار اور طریقہ بھی صحیح سند سے ثابت ہو تو ایسا وظیفہ کر لینا صحیح ہو گا اور اگر وظیفہ کے الفاظ قرآن میں یا صحیح حدیث میں نہیں اور جو مقدار یا طریقہ کسی نے بتایا ہے وہ بھی نہیں تو ایسے وظیفہ کو پڑھنا درست نہیں ہو گا اور اگرالفاظ ثابت ہیں لیکن مقدار اور طریقہ نہیں، تو ایسے طریقے اور مقدار کو اختیار کرنا ہرگز جائز نہیں۔کیونکہ اسلام رسول مکرم کی زندگی میں مکمل ہو گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو دین کی حیثیت سے پسند کر لیا‘‘۔ (المائدہ: 3)
نبی مکرمeنے فرمایا: ’’مجھ سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیھم السلام گزرے ہر ایک پر فرض تھا کہ اپنی امت کو ہر خیر اوربھلائی بتائے اور جو خیر اور بھلائی اسے معلوم ہے اپنی امت کو بتائے اور جو شر، برائی جانتا ہے اس سے ڈرائے۔‘‘ (مسلم، 1844)
ابو ذر غفاریtبیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہeنے فرمایا: ’’ایسی کوئی چیز بچی ہی نہیں جو جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرتی ہو اور وہ بیان نہ کی گئی ہو۔ (المعجم الکبیر للطبرانی)
اس سے معلوم ہوا کہ انبیا کرام علیھم السلام اور خصوصاً امام الانبیاءؐ نے ہر خیر و اچھائی اور جنت کے قریب کرنے والا ہر عمل واضح فرما دیا اور ہر برائی اور جہنم کے قریب کرنے والا ہر عمل بھی بیان کر دیا۔
اب کسی بھی شخص کی طرف سے ایسا وظیفہ یا کوئی بھی نیکی کا عمل یا کسی وظیفہ کی خاص معین مقدار یا طریقہ جو کتاب و سنت میں نہ ہو، پیش کرنے کا مطلب ہو گا کہ شریعت مکمل نہیں اور اس کی تعلیمات لوگوں کے لیے نا کافی ہیں، یا نعوذ باللہ رسول اللہ نے دین پہنچانے میں خیانت کی ہے ۔ بعض وظائف ان کی مقدار اور طریقے لوگوں نے اپنی طرف ہی سے مقرر کر رکھے ہیں، جن کی اللہ نے آسمان سے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ ان وظائف سے مسلمانوں کو ہر صورت بچنا چاہیے اور یقین رکھنا
Tags
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔