Asia bibi case آسیہ ملعونہ کون، کیسکے آغاز سے رہائی تک؟ مکمل داستان
October 31, 2018
0
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14 جون 2009ءکو ضلع ننکانہ کے ایک نواحی گاوں اِٹانوالی میں عیسائی مذہب کی مبلغہ آسیہ مسیح نے قرآنِ مجید اور حضور نبی کریم کی شان اقدس میں نہایت نازیبا، دل آزار اور گستاخانہ کلمات کہے جن کو دہرانے کی میرا قلم اجازت نہیں دیتا۔ آسیہ مسیح کے شوہر عاشق مسیح نے فوری طور پر وفاقی وزیر اقلیتی امور شہباز بھٹی سے رابطہ کیا جن کی مداخلت پر کئی دن تک ملزمہ کے خلاف پرچہ درج نہ ہوسکا۔ وفاقی وزیر کی اس حرکت سے علاقہ بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔بالآخر 19جون 2009ءکو آسیہ مسیح کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت ایف آئی آر نمبر 326 درج کرلی گئی اورملزمہ کو گرفتار کرکے حفاظتی اقدام کے طور پر ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ بھیج دیا گیا۔اہم بات یہ ہے کہ اس کیس کی تفتیش پنجاب پولیس میں نیک نامی اور دیانت داری کی مثالی شہرت رکھنے والے جناب سید محمد امین بخاری ایس پی شیخوپورہ نے کی، جنہوں نے 26 جون 2009ءکو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت آسیہ مسیح کا بیان ریکارڈ کیا اور نہایت جانفشانی ، غیر جانبداری اور شفاف طریقے سے اس کیس کے تمام پہلووں کی مکمل تفتیش کرتے ہوئے آسیہ مسیح کو واقعی ملزمہ قرار دیا او راپنی رپورٹ میں لکھا کہ
”ملزمہ آسیہ مسیح کا حضور نبی کریم کی شان میں اور قرآنِ مجید کے متعلق گستاخانہ باتیں کرنا قانونی طور پر ثابت ہوچکا ہے۔ ملزمہ نے یہ تمام باتیں نہ صرف تسلیم کیں ہیں بلکہ اپنی غلطی کی معافی بھی مانگی ہے۔“
س مقدمہ کی سماعت ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب، جناب محمد نوید اقبال کی عدالت میں ہوئی۔ملزمہ کی طرف سے اکبر منور درّانی ایڈووکیٹ، طاہر گل صادق ایڈووکیٹ، چوہدری ناصر انجم ایڈووکیٹ،جسٹن گل ایڈووکیٹ، طاہربشیر ایڈووکیٹ، ایرک جون ایڈووکیٹ اورمنظور قادر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ، جبکہ استغاثہ کی طرف سے میاں ذوالفقار علی ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک اس مقدمہ کی سماعت ہوتی رہی۔ 8 نومبر 2010ءکو اس مقدمہ کا فیصلہ سناتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج نے جرم ثابت ہونے پر ملزمہ آسیہ مسیح کو تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295سی کے تحت سزائے موت کامستحق قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلہ میں لکھا :
”یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس گاوں میں عیسائی حضرات کی ایک کثیر تعداد مسلمانوں کے ساتھ کئی نسلوں سے آباد ہے۔ لیکن ماضی میں اس قسم کا کبھی کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ مسلمان اور عیسائی دونوں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات اور اعتقادات کے سلسلے میں برداشت اور رواداری کا مظاہرہ کرتے آ رہے ہیں۔ اگر توہین رسالت کا اس قسم کا کوئی واقعہ پہلے کبھی اس گاو ¿ں میں پیش آیا ہوتا، تو یقیناً فوجداری مقدمات اور مذہبی جھگڑے اس گاوں میں پہلے سے موجود ہوتے۔لہٰذا اس دفعہ یقیناً توہین رسالت کا ارتکاب ہوا ہے۔ جس کے باعث مقدمہ درج ہوا اور عوامی اجتماع منعقد ہوا اور یہ معاملہ اس قصبے اور اِرد گرد میں موضوعِ بحث بن گیا۔ یہاں یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ نہ تو ملزمہ خاتون نے اپنی صفائی میں کوئی شہادت پیش کی، اور نہ ہی دفعہ (2)340، ضابطہ فوجداری کی تعمیل کرتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات غلط ثابت کئے۔مندرجہ بالا بحث کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ استغاثہ نے اس مقدمہ کو کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت کردیا ہے۔تمام استغاثہ گواہان نے استغاثہ کے موقف کی متفقہ اور مدلل اندازمیں تائید و تصدیق کی ہے۔استغاثہ گواہان او رملزمہ، ان کے بزرگوں، یا ان کے خاندانوں میں کسی دشمنی کا وجود نہیں پایا جاسکا۔ لہٰذا ملزمہ خاتون کوناجائز طور پر اس مقدمہ میں ملوث کیے جانے کا قطعاً کوئی امکان نہیں۔ملزمہ کو اس مقدمہ میں کوئی رعایت دیئے جانے کا بھی کوئی جواز موجود نہیں۔لہٰذا میں ملزمہ آسیہ بی بی زوجہ عاشق کو زیر دفعہ 295سی تعزیراتِ پاکستان، موت کی سزا کا مجرم ٹھہراتا ہوں۔“
معروف صحافی حامد میر 2010ءکے روزنامہ جنگ میںلکھے گئے کالم سے اقتباس پیش ہے:
آسیہ بی بی کا تعلق ننکانہ صاحب کے نواحی علاقے اٹانوالی سے ہے۔ پانچ بچوں کی 45 سالہ ماں آسیہ بی بی کو مقامی سیشن عدالت سے توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا سنائی جاچکی ہے۔ آسیہ بی بی پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ سال کئی افراد کی موجودگی میں توہین رسالت کی جس کے بعد اسے پولیس کے حوالے کیا گیا۔ پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 سی کے تحت اس کے خلاف مقدمہ درج کیا۔ اس مقدمے کی تفتیش ایس پی انویسٹی گیشن شیخوپورہ محمد امین شاہ بخاری نے کی اور ان کا کہنا ہے کہ دوران تفتیش آسیہ بی بی نے
مسیحی برادری کے اہم افراد کی موجودگی میں اعتراف جرم کیا اور کہا کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے۔لہٰذا اسے معاف کر دیا جائے۔ آسیہ بی بی کا کہنا تھا کہ گذشتہ سال کچھ مسلمان خواتین نے اس کے سامنے کہا کہ قربانی کا گوشت مسیحیوں کیلئے حرام ہوتا ہے جس پر غصے میں آکر اس نے کچھ گستاخانہ کلمات کہہ ڈالے جس پر وہ معافی مانگتی ہے۔ آسیہ بی بی نے اپنے خلاف مقدمے کے مدعی قاری سالم سے بھی معافی مانگی لیکن اس کا موقف یہ تھا کہ توہین رسالت کے ملزم کو معافی نہیں مل سکتی۔ ایڈیشنل سیشن جج ننکانہ صاحب نوید اقبال نے گواہوں کے بیانات اور واقعاتی شہادتوں کو سامنے رکھتے ہوئے 8 نومبر 2010ءکو آسیہ بی بی کیلئے سزائے موت اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا کا اعلان کیا۔
(حامد میر کالم آسیہ بی بی اور قانونِ توہین رسالت 25 نومبر2010، روزنامہ جنگ)
کچھ لوگ یہاں نکتہ ترازی کرتے ہیں کہ یہ شریعت ِاسلامیہ کی توہین نہیں، بلکہ چند انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی توہین ہے، جس کی سنگین سزا نہیں ہوسکتی۔ حقیقت میں یہ ایک خودساختہ عذر ہے۔ 295 سی میں درج تین سطروں پر مشتمل قانون توہین رسالت کوئی انسانی قانون نہیں بلکہ شرعی قانون ہے اور براہ راست قرآن وسنت سے اخذ کیا گیا ہے۔اس قانون پر وفاقی شرعی عدالت کے فاضل جج صاحبان ملک بھر کے جید علمائے کرام کی تفصیلی معاونت سے نظر ثانی کرچکے ہیں ،پھرپاکستان کے دونوں ایوانوں نے 1992ءمیں متفقہ منظوری دے کر اس پر مہر تصدیق ثبت کی ہے۔
جب قانون توہین رسالت اور شریعتِ اسلامیہ کے مقصود ومدعا میں معمولی فرق بھی نہیں ہے ، اور ماضی میں جو معمولی فرق تھا، اس کو طویل عدالتی جدوجہد کے بعد رفع کردیا گیا ہے توپھر یہ دعویٰ کیا حقیقت رکھتا ہے کہ ہم تو چند انسانوں کے بنائے ہوئے قانون کی مخالفت کررہے ہیں؟ پاکستان میں کسی قانون کو شریعت ِاسلامیہ کے عین مطابق کرنے کی جو زیادہ سے زیادہ ممکنہ
اورمعیاری ترین صورت ہے، قانون توہین رسالت ان تمام معیارات کو سوفیصد پورا کرتا ہے۔اس کے بعد اس کو چند انسانوں کا قانون کہہ کر تختہ تمسخر و مذاق نہیں بنایا جاسکتا بلکہ اسے شریعت ِاسلامیہ کی ہی توہین قرار دیا جائے گا۔
قانونِ امتناع توہین رسالت کا متن حسب ِذیل ہے:”جو کوئی الفاظ کے ذریعے خواہ زبانی ہوں یا تحریری یا نقوش کے ذریعہ، یا کسی تہمت، کنایہ یا در پردہ تعریض کے ذریعے بلا واسطہ یا بالواسطہ رسول پاک حضرت محمد کے پاک نام کی توہین کرے گا تو اسے موت کی سزا دی جائے گی اور وہ جرمانے کا بھی مستوجب ہوگا۔“
واضح رہے کہ مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو نومبر 2010 میں ٹرائل کورٹ نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت سنائی تھی، جسے لاہور ہائیکورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔
Tags
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔