بہت زیادہ تلخ اور اذیت ناک واقعات سے بھری تحریر
آج جو سب بھول گئے ہیں وہ وقت بھی یاد ہےمشرقی پنجاب میں خون کا جوسیلاب آیا تھا اس کے بارے میں لندن ٹائمز کے نام نگار نگار آئن مورسن کی ذاتی صلاح زندگی پر مبنی ان تین رپورٹوں کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ اس نے اگست اور ستمبر 1947 ء کو جالندھر کے امرتسر سے اپنے اخبار کو ارسال کیا تھا
پہلی رپورٹ میں وہ لکھا ہوا تھا کہ مشرقی پنجاب کو کوالیٹی میں سرگرمی ہوئی۔ وہ روز بیدردی سے سینک کے افراد سے تعلق رکھنے والے افراد کو تہی تیغ تھے اور حجروں کو مغرب کی بات بنوکِ شمشیر بھگا حقیقت ہے۔ اس نے دیہات اور گھروں کو قبول کرلیا۔ اس ظلم اور روزہ کی اعلی سطح پر منظم نظم و ضبط کا یہ ایک خوفناک کام ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر معنوں میں مبتلا ہونا چاہئے۔
دوسری رپورٹ میں لکھا ہوا تھا کہ امرتسر 8 اگست کے بعد اس کی شادی کرلے گی ، محلے کے دھلے دھونے جلنا شروع ہو گئے اور لوگوں کی پناہ گاہیں بھاگنا شروع ہوگئیں۔ 13 اور 14 اگست کو پورا امرتسر شعور کی لپیٹ میں اچکا تھا۔ 15 اگست کو امرتسر میں ہندوستان کا یوم آزادی بڑے عجیب سے منایا گیا۔ سہ پہر کو سکون کے ایک حاجوم نے برنحہ میں مسلمان عورتوں کے جلوس امرتسر کے گلی کوچوں میں نکالا ان کی آبروریسی اور پھر کبھی کسی کرپینوں سے ٹکڑے ٹکڑے کرلیے اور بعض اوقات کوئ زندہ اجزاء بنائے۔
تیسری رپورٹ میں وہ بیس میل لمبے قافلے کے بارے میں جانکاری دے رہی تھی ، "اس قافلے میں بیس ہزار کی تعداد میں سب سے زیادہ افریقہ تھا اور اس سے اکثر پیدا ہونے والا پاکستان آتا ہے۔" اور قافلے مشرق سے مغرب کی طرف سے رواں دواں ہیں۔ آب پاپا ، تھکان سے چور ، بھوکاٹ مارے ، سفر کی صوبوبتوں سے نڈھال۔
دو ماہ بعد وہ لکھا ہوا 70 لاکھ مہمانوں سے بڑھ کر مہاجرین گرجا پوجا پاکستان پہنچ گیا۔ وہ بالکل بے سروسامان ہے۔ پاس اکثر اس درد دردانی بلاک نے کسی معصوم بچے کو قتل نہیں کیا ، لاشوں کی قطی و بریدی اور عورتوں کی آنکھوں سے بےحرمتی ہوئی ہے۔ راستے میں قدم پر موت کی گھڑیوں میں تھی۔ میں ھ ب سے ھ سے زارزار زارزار بحزار بح بیماری بیماری جا جا خون خون شش بہت سارے پاکستان کی سرحد پر پہنچے۔
(# بحوالہ ____ خونِ_مسلم_ارزاں_ آئے_از_ڈاکٹر_سعید_احمد_ملک)
پاکستان کی طرف سے ہجرت کرنے والے مہاجرین کی ٹرینوں پر بھی جابجا کے ساتھ رہتے ہیں۔ اکثر ٹرینوں کے سارے مسافر فنا کے گھاٹ کے پانی کا راستہ ، نوجوان لڑکے اغوا کر لیتا ہے اور ان کی زندگی سے موت بدتر ہوتی ہے۔
اس ضمن میں بیشمار واقعات میں صرف دو کا تذکرہ ہوتا ہے۔
پہلے واقعہ کا راوی گنڈا سنگھ والا ریلوے سٹیشن کا اسسٹنٹ ریلوے ماسٹر خود تھا۔ وہ کہتا تھا:
"ایک مہجر ٹرین فیروز پور کی طرف سے قصور آ رھی تھی۔ گنڈا سنگھ والا سٹیشن پہنچ گیا۔ مجید یزیدانی صاحب پلیٹ فارم پر اس کا استقبال کریکٹر پہنچا۔ گاڑی کی رکی تو اس نے ساری بوگیاں خون سے لٹ پتلیوں کو پہنچا۔" ڈوبوں میں لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ یہ منظر اس زمانے کا معمول تھا۔ اس سے پہلے اور اس قسم کا منظر آ گیا تھا۔ جب بوگیوں میں جھانکتے ہوئے آئے تھے ، جب آخری بوگی کے قریب پہنچے تھے تو ان کی آواز تھی۔ اس بوگی میں ایک سال سے پانچ سال تک کی عمر کے بیسمار میں زندہ لاشوں کے خون میں لت پت کلبلا کی زندگی کا انکشاف ہوا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ بہیمت اور درندگی کی مثال تاریخ میں مل مل گیٹ ہوگئی۔
(# بحوالہ ___ حالاتجہد_آزادی_میں_پنجاب_کا_کردار_از_ڈاکٹر_غلام_حسین_ذوالفقار)
دوسرا واقعہ یہ تھا کہ نومبر 1947 ء کو ایک شام واھگہ ریلوے اسٹیشن پر واقع لاھور کا ایک جم غفیر اسکا گاڑی استقبال موجود تھا جو مہاجرین کو کالا سے لے کر چلی تھی اور براہ راست امرتسر پاکستان پہنچ گیا تھا۔ خاص طور پر انتظار کے بعد دھندلائے ایک دوسرے کے ساتھ ایک سیاہ دھبہ منتقلی لوگوں کی سمت بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ یہ ریل کا انجن تھا۔ خوشی کی ایک لہر اہجوم میں پھیل رہا ہے۔ وہ پانی کی مشق اور کھانے پینے والی چیزوں کا جائزہ لے رہی ہے۔ جوں کی گاڑی نزدیک آتی لوگوں کاجوش اور خروش بڑھتا گیا۔ اس نے نعرہ تکبیر ، نعرہ رسالت اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ، گاڑی سے ان کا نعرہ لگا کر کوئی جواب نہیں دیا۔ گاڑی اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوجائیں اور وقت کی رفتار سے چلتی پلیٹ فارم پر چلیں لیکن اس کی گاڑی کا کوئی دروازہ نہیں کھلی اس میں سے کوئی ذی روح برآمد ہوگا۔ لوگوں کے دل انجانے اندھیشے سے دھڑک اٹھے اور جب وہ کھڑکیوں سے آئے ڈبوں کے اندر جھانکا کی صلاحیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کرپانوں سے کٹے باہم گلے ، گولیوں سے چھلنی سینے ، جسم سے علیحدہ بازو ، ایک دوسرے کے ساتھ پیٹ ، ظلم اور مظلومیت کا شکار ہوکر رہ گئے۔ پھر نوجوانوں کی گاڑیوں کے پانی میں لت پت پتلی ، کٹی پھٹی اوپر والے لاشوں کو عزت و احترام کے ساتھ پانی کی آنکھوں سے ہڈیوں کا عقیدہ پیش کرنے والا ہے۔
(# بحوالہ ___ 1947 ء_کے_مظالم_کی_کیانی_خود_مظلوموں_کی_زبانی_از_حکیم_محمد_طارق_محمود_چغتائی)
لند ن کے اخبار ڈیلی میل کے نمائندے خصوصی مسٹر رالف نے خدا کے ایام میں کراچی سے دھلی تک کا سفر کیا تھا۔ یہ 27 اگست 1947 ء کی دیلی میل میں لکھا ہوا ہے:
میری صرف وہی لوگ سن سن سکتے ہیں جو بہت بڑا دل گردہ ہوتا ہے۔ جب میں کراچی سے براہ راست لاھور عظمم دھلی گزرے کراچی سے لاھور پہنچ گیا تو سفیقی کا کوئی منظر نظر نہیں آیا اور نہ ہی کسی لاش میں موجود تھا۔ لاھور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہمت والی دشت اور بربریت کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں کیونکہ اسی دن لاہور میں خون سے لت پت پتلی ہوئی تھی - اس ریل 9 ڈوبس پر واقع تھی جس کی آسانی سے ایک مسافر سماجی تھا۔ اس ریل کے مسافروں کو بٹھنڈا کے جنکشن پر بیدریغ تہوار تیغ کر دیا گیا تھا۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دھلی کے لئے روانہ خود کو۔ پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا کے مناظر بکھرے پڑے ہوئے ہیں جو لاھور کی لٹی پٹی ٹرین سے زیادہ سے زیادہ ہولناک اور دل دھلا دینے والے ہیں۔ گدھرا گاؤں کے قریب جانے کی وجہ سے ریلوے کی پٹڑی پر اکٹھا ہی رہ گیا تھا ، کٹی انسانی لاشوں کو بھن بھوڑ کے مقام پر پہنچا ہے اور فیروزپور کے مکانات ابھی ابھی شعلے میں آگئے ہیں۔ جب ھماری ریل بٹھنڈا واڑھی تو مجھے ریل کریں ذرہ فاصلے پر انسانی لاشوں کی ایک نظر آ گئی۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ پولیس کے دو سپاہی مزید لاشوں سے لیڈی بیل گاڑی والے لاشوں کے ڈھیر پر ڈالے ہوئے ہیں۔ ا س ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہی رھا۔ سپاہی کھانے پینے والی چیزوں سے دوچار رہتی ہے اور انسانوں کو چھوڑ کر چلتے رہتے ہیں "
وہ مزید لکھا ہوا:
"فیروز پور ہجرت میں ایک جگہ لسٹاپیٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کا کہنا تھا کہ اچانک سکک پر حملہ ہوا۔ ایک عورت کی گود میں پانچ چھ ماہ کی بچی تھی۔ وہ ایک وحشی درندے وہ بچہہ کی ماں کی چھٹیوں سے چھٹی ہوئی تھی۔ اچھالا اور پھر اس کی کرپان آج کسی معصومیت کی وجہ سے ترازو سے دور ہوگئی اور اس کا خون بہہ رہا ، وہ وحشی درندے کی کراٹھ آمیز چھاپہ پر تھی۔ پاکستان میں جب ماں نہیں تو جگر گوشے کو نوکِ سنسان پہلو سجے ہے تو اس کا دل بھی دھڑکنا بھول گیا "
ڈیلی میل کا نمائندہ خصوصی آگے چل رہا ہے
"بٹھنڈا سٹیشن پر حتمی نظریہ وہ انتہائی کریہہ ، گھناؤنا اور انسانیت سوز تھا۔ جونہی ہمیری ٹرین چلی ، ہم لوگوں کو اس کی وجہ یہ ہے کہ چار سکھ چھت افراد نے انتہائی عام طور پر سیدھے عصمت دریائے کرام پر آئے ہیں۔ ۔
(# بحوالہ ___ خون_مسلم_ارزاں_ آئے_از_ڈاکٹر_سعيد_احمد_ملک)م
امرتسری صورت حال بھی باقی جگہوں سے کچھ مختلف نہیں تھی۔ ہمارا قتل و غارت ، آتش زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم تھا۔ 15 اگست کی صبح نو بجے قریب قریب پانچ سو بلوائیوں نے ہندو ، سکھ پولیس اور فوج کے ساتھ مل کر کوچہ رنگریزاں پر حملہ کیا اور اس کے ساتھ ہی تمام باسیوں کو تہوار کی تیاری کر دی۔ دوسرے دن جب ایک مجسٹریٹ کے ہمراہ محلے کا معائنہ ہوا تو گلی کوچوں کے لاشوں میں کچھ نہیں تھا۔ مکانوں کے اندر جھانکا تو وہ بھی لاشوں سے اٹے ہوئے تھے۔ ایک مسجد کے اندر نظر ڈالی تو وہ بھی متعدد لاشوں میں نظر آتی ہے لیکن وہ سب نوجوانوں کی لاشوں کو زندہ کرتے ہیں۔ امتِ مسلمہ کی ناموس کی 46 برونہ لاشیں۔ انکے گلے کاٹے اس کی حالت بتا رہی تھی اس سے پہلے کہ اس نے عصمت دری کی تھی۔ دیہات سے آنے والے لوگوں نے بتایا کہ کپتھولہ اور پٹیالہ کے ریاستی فوجی جوان گاڑیاں لے کر آتے ہیں اور ہماری نوجوانوں کے ساتھ کوسٹی والے مقام پر جاتے ہیں۔ کچھ عورتیں جان بچا کر دروازہ مہان سنگھ سے شریف پورہ کی طرف آ رھی عمر۔ "بلوئیوں اور ہندو سکھ فوجیوں نے دن دیہاڑے سڑک پر جانے کی کوشش کی۔ کوئی جانتا نہیں امتِ مسلمہ کی بیٹیوں کا کیا بنا۔اسی طرح 3 ستمبر 1947 دھ دھ دھح ء میں دھواں دار نوحی دیہات میں بھی بدعنوانی شروع ہوگئی تھی اور جلد ہی دھلی والے شہر بھی اپنی لپیٹ میں آئے تھے۔ گلی گلی ، محلے محلے کی خود بخود لاشعوری طور پر نظر آتی ہے۔ 5 ستمبر کو کورول باغ میں شہیدی ہمال کے تمام مسلمانوں کو قتل کر رہے تھے جس میٹرک کا امتحان دے رہے ہیں۔ طرف طرف مسلمان ھی مسلمان ھر طرف سامان ھی سامان۔۔۔۔ سبزی منڈی کے علاقوں میں ولبھ بھائی پٹیل اشارے پر گورکھا فوج نے تینوں شہریوں کو موت کے گھاٹ کا انتخاب کیا۔ ایک عینی شاہد نے بتایا کہ 9 ستمبر تک واٹر ورکس اور فیروز شاہ کوٹلہ کے درمیان کم سے کم دس دس ہزار لاشوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے ، جس میں ٹریکٹر میں بھر کی رہائش پذیر تھی۔ شام کو سات بجے ان تمام لاشوں کو پٹرول ڈالر کا سامان ملا۔ یہ جلدی ایک ساتھ انسانی جسموں کے الاؤ کی روشنی دور تک جاسکتی تھی۔ چار اور چودہ ستمبر کے درمیانی حصے سے پچیس ھزار تک مسلمان مارے جا رہے تھے۔ ایک مسلمان جو جان بچا کر کے پاکستان کے ساتھ رہ گیا ، اس نے چشم دید واقعہ بیان کیا۔ کیا سوچتے ہو؟ یہ مسلمان عورتوں کے جسموں سے دوچار ہیں
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔