تحریر۔لیاقت علی
آج سے فقط15, 20 برس پہلے جب رمضان شریف آیا کرتا تھا تو اپنے ساتھ فقط روزے نہیں بلکہ امت مسلمہ کے لیے رفاقتوں، محبتوں اور قربتوں کو بڑھانے کے لیے بہت سے احساساسات بھی اپنے دامن میں لپیٹ کے لایا کرتا تھا۔مسلمانوں میں ایکدوسرے کومحبت کے ان جذبات کا احساس دلانے کے لیے عید کارڈز کے استعمال کا پہلو سب سے نمایاں اور حسِیں سمجھا جاتا تھا۔رمضان شریف کا مقدس مہینہ آتے ہی مختلف دوکانوں اور ریڑھیوں پہ انتہائی خوبصورت ، دلکش اور دیدہ زیب عید کارڈز کے سٹالز سج جاتے جو ہر گزرنے والے کو نہ صرف اپنی طرف متوجہ کرتے بلکہ اپنوں سے محبت کی تڑپ کو اور بھی بیدار کردیتے۔طالب علم سکول روانہ ہوتے تو گھر والے ان کے ذمہ یہ کام سونپ دیتے کہ عیدکارڈز کے ڈیزائن، رنگ،دلکشی دیکھ کے قیمتیں معلوم کرکے واپس گھر آکر ضرور بتانا اور یوں وہ طالب سکول سے چھٹی کے بعد عیدکارڈز کےسٹال پہ جاتا اور تکتا ہی رہ جاتا ۔مساجد، خانہ کعبہ، مور اور کبوتر کی چونچ میں زنجیر کیساتھ بندھے عیدکارڈ کی تصاویر والے پرکشش کارڈز نے سٹالز کی زینت کو چارچاند لگائے ہوتے ۔طالب علم عیدکارڈز دیکھنےکے ساتھ ساتھ اپنے رشتہ دار اور عزیزوں کا بھی سوچ رہا ہوتا کہ کِس کو کونسا کارڈ بھیجنا ہے۔طالب علم گھر پہنچ کر کارڈز کے ڈیزائن اور قیمتیں بتاتا ہے۔شام ڈھلنے کے بعد رات کو لالٹین(مٹی کے تیل سے چلنے والی لیمپ)کی روشنی میں کارڈز خریدنے کامشورہ ہوتا جسکے بعد گھر کی دہلیز کی زینت یعنی بیٹیاں اپنا مٹی کا گلہ توڑدیتی۔ پیسے کم ہونے پہ امی اور ابو تعاون کرتے ۔رشتہ داروں اور بیٹیاں اپنی سہیلیوں کے لیے کارڈ خریدنے کے لیے بھائی کو پیسے دیتی ۔اگلے دن بھائی کی خوشی بھی دیدنی ہوتی ہے، سکول سے چھٹی پہ فوراً عید کارڈ کے سٹال پہ پہنچتا ہے جلدی جلدی کارڈز خرید کے گھر کیطرف روانہ ہوتا ہے۔بھائی کوآج گھر جانیکی بھی کچھ زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے ۔گھر والوں کو بھی آج طالب علم کی واپسی کا پے چینی سے انتظار ہوتا ہے کہ اتنے میں باہر سے سائیکل کی گھنٹی کی آواز سنائی دیتی ہے اور اگلے ہی لمحے بھائی گھر میں داخل ہوتا ہے۔گھر داخل ہوتے ہی سب گھروالے بھائی کو گھیر لیتے ہیں۔خوبصورت کارڈز دیکھے جاتے ہیں کہ کونسا کارڈ کس کو بھیجنا ہے کا فیصلہ طے کرنے کے بعد کارڈز کے اندر عید سے وابستہ اور مزاحیہ شاعری بھی تحریر کی جاتی ہے۔
عید آئی ہے رمضان بن کر
۔۔۔ہمارے گھر آنا مہمان بن کر
عید آئی ہے تحفہ کیا بھیجوں...؟
جی تو چاہتا ہے پلاسٹک کا لوٹا بھیجوں
محبتوں اور مزاح سے لیس یہ اشعار پڑھنے والے کا تصور اس کو ایک پل کے لیے کارڈ لکھنے والے کی قربتوں اور محبتوں کا محتاج بنا کے رکھ دیتا۔کسی اپنے کو کارڈ بھیجنے کی جتنی چاہت ہوتی اس سے کہیں زیادہ انتظار رشتہ دار اور سہیلی کے عیدکارڈ کے آنے کا بھی ہوتا۔بھائی رمضان کے دوسرے عشرے کا آغاز ہوتے ہی ڈاک خانے کے چکر لگانے لگ جاتا کہ کسی عزیز کا عید کارڈ تو نہیں آیا۔جس دن کوئی عید کارڈ آیا ہوتا اُس دن بھائی کی خوشی کی انتہا ہوتی۔تیز سائیکل چلاکر گھر پہنچتا ہے اور بھوک کا احساس بھی مٹ چکاہوتا ہے۔جونہی گھر پہنچ کر کارڈ کی نوید سناتا ہے تو سب گھر والے ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں، بھائی سب کو کارڈ کی محبتوں بھری تحریر سناتا ہے اور پھر باری باری سب گھر والے عید کارڈ کو اپنے ہاتھ میں تھام کر محبت بھرے جذبات سے تکتے۔قریب سے آنیوالی سہیلی کے کارڈ کے ساتھ ہاتھ کی مشین سے بنی سوّیاں، مہندی کے چند پیکٹ اور ہاتھ کا رومال یا موتیوں سے آراستہ پراندا(سرکے بالوں کوباندھنے والا) ضرور ہوتے۔بظاہر کاغذ کا یہ ٹکڑا اتنی قیمت کا تو نہ ہوتا مگر اس کے اندر محبت، چاہت اور اپنائیت کے ایسے احساسات ہوتے کہ اس عید کارڈ کو گھر کے کمرے کی کچی دیوار کی زینت(چِسپاں کیا جانا) بنادیا جاتا اور کئی کئی مہینے بلکہ سالوں تک بھی کمرے کی دیواریں ان خوبصورت عید کارڈز سے سجی رہتیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کچی دیواروں کی جگہ اعلی شان گھروں اور پکی دیواروں نے لے لی اور یہ عید کارڈ بھی کچی دیوار میں ہمارے مخلص رشتوں کے احساساتِ محبت لیکر ماضی کی تاریخ کا حصہ بنتا چلا گیا ۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہم محبت کے متلاشی تو ہیں مگر کچی دیوار بنانا گوارہ نہیں کرتے کیونکہ ہمیں معلوم نہیں کہ ان دیواروں میں محبتوں کے سچے احساسات کی ترجمانی کرنے والے عید کارڈز اپنا وجود کھو چکے ہیں اور یوں عید کارڈ کو کچی دیوار سے لٹکانے تک کا سفر بھی اختتام پذیر ہوچکا ہے۔
عصر حاضر کے دورِ جدت میں ہرسال میرے گھر اب بھی عید تو آتی ہے مگر عید کارڈ نہیں۔
آپنی رائے درج کریں
کمنٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔